Faraz Faizi

Add To collaction

29-Jun-2022-تحریری مقابلہ(نماز) بغیر ترجمان کے مولیٰ سے ہم کلامی


سب خوبیاں اللہ عزوجل کے لئے جس نے اپنے لطف و کرم سے بندوں کو ڈھانپا دین اور احکام دین کے انوار سے ان کے دلوں کو آباد فرمایا، وہ ذات کے عرش الہی سے آسمان دنیا کی طرف درجات رحمت میں سے کوئی نہ کوئی مہربانی اترتی رہتی ہے۔پاک ہے وہ ذات اس کی شان کتنی عظیم ہے اس کی بادشاہت کتنی قوی ہے، اس کا لطف و کرم کتنا کامل ہے، اس کا احسان کتنا عام ہے۔خوب درود و سلام ہو اس کے منتخب نبی اور پسندیدہ دوست حضرت سیدنا محمد مصطفی احمد مجتبیٰ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم پر اور آپ کے آل و اصحاب رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین پر جو ہدایت کی کنجیاں اور تاریکیوں کے چراغ ہیں۔

بے شک نماز دین کا ستون یقین کا وسیلہ عبادات کی اصل اور طاعت کی چمک ہے۔اللہ عزوجل قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد فرماتا ہے:اِنَّ الصَّلٰوةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ كِتٰبًا مَّوْقُوْتًا(103) بے شک نماز مسلمانوں پر وقت باندھا ہوا فرض ہے۔
قرآنِ مجید اور احادیث میں نماز کے حقوق کی ادائیگی کے ساتھ نماز پڑھنے والوں کے فضائل بیان کئے گئے اور نہ پڑھنے والوں کی مذمت بیان کی گئی ہے چنانچہ فرمایا:
{وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ:اور نماز قائم کرتے ہیں۔}آیت کے اس حصے میں متقی لوگوں کا وصف بیان کیا گیا کہ وہ نماز قائم کرتے ہیں۔نماز قائم کرنے سے مراد یہ ہے کہ نماز کے ظاہری اور باطنی حقوق ادا کرتے ہوئے نمازپڑ ھی جائے۔نماز کے ظاہری حقوق یہ ہیں کہ ہمیشہ، ٹھیک وقت پر پابندی کے ساتھ نماز پڑھی جائے اورنماز کے فرائض، سنن اور مستحبات کا خیال رکھا جائے اور تمام مفسدات و مکروہات سے بچا جائے جبکہ باطنی حقوق یہ ہیں کہ آدمی دل کوغیرُاللہ کے خیال سے فارغ کرکے ظاہروباطن کے ساتھ بارگاہِ حق میں متوجہ ہواوربارگاہِ الٰہی میں عرض و نیاز اور مناجات میں محو ہو جائے۔(بیضاوی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۳، ۱ / ۱۱۵-۱۱۷، جمل، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۳، ۱ / ۱۸، ملتقطاً)

جب ان رعایتوں اور نماز کی ظاہری و باطنی حقوق کی ادائیگی کے ساتھ نماز ادا کی جائے گی تو ان کے لئے بشارت ہے: ’’ قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱) الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَ‘‘ بیشک(وہ) ایمان والے کامیاب ہوگئے۔ جو اپنی نماز میں خشوع و خضوع کرنے والے ہیں۔(مؤمنون: ۱-۲)

در حقیقت نماز تو وہی کامل اور مقبول بارگاہ ہے جو خشوع اور خضوع کے ساتھ دلوں میں عظمت و ہیبت الہی بسا کر پڑھی جائے جیسا کہ حدیث پاک سے معلوم ہوتا ہے کتب سابقہ میں ہے کہ اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے میں ہر نمازی کی نماز قبول نہیں کرتا بلکہ میں اس کی نماز قبول کرتا ہوں جو میری عظمت کے سامنے عاجزی کرے اور میرے بندوں پر بڑائی نہ چاہے اور میری رضا کے لئے فقیر کو کھانا کھلائے۔(کنز العمال)

نماز ہو تو ایسی :

ام المومنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ  ہم سے اور ہم آپ سے گفتگو کرتے، جب نماز کا وقت ہوتا تو عظمت و جلالت کبریائی میں اس قدر مشغول ہوجاتے گویا نہ آپ ہمیں پہچانتے اور نہ ہم آپ کو پہچانتے۔(المستطرف فی کل فن مستطرف)

حضرت سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو آپ کے دل کی دھڑکن دو میل کی مسافت سے سنائی دیتی۔(الجامع الاحکام القرآن)

مذکورہ سورت میں ایمان والوں کے مزید اوصاف بیان کرنے کے بعد ان کا ایک وصف یہ بھی بیان فرمایا کہ

’’ وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَ‘‘(مؤمنون: ۹)
ترجمۂ کنزالعرفان:اور وہ جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ 
اس طور پر کہ اپنی نمازوں کو مکروہات و ممنوعات سے پاک کر کے ارکان نماز کی بھرپور ادائیگی کے ساتھ ان کے مقررہ وقتوں پر باجماعت ادا کرتے ہیں۔اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:باجماعت نماز تنہا نماز سے ستائیس درجہ افضل ہے۔(صحیح البخاری) تو جب بندہ ان اوصاف کا حامل ایمان والا ہو جاتاہے تو ان کا انعام  کیا ہے!!؟
فرمایا :’’ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْوٰرِثُوْنَۙ(۱۰) الَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَؕ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ‘: یہی لوگ وارث ہیں۔یہ فردوس کی میراث پائیں گے، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ ‘(مؤمنون: ۱۰-۱۱)

سبحان اللہ!!! کیا ہی خوبصورت انعام ہے۔ قربان نہ ہوجائے اس خالق کائنات پر جس نے اپنے محبوب کریم ﷺ  کی امت میں پیدا فرما کر احسان عظیم فرمایا اور سفر معراج کے ذریعے عظیم الشان نماز کا تحفہ عطا فرمایا پھر ہمیں چاہیے کہ اس امانت کی حفاظت کریں اور نمازوں کو ان کے وقتوں پر صحیح معنوں میں ادا کریں۔اگر تو ایسا نہ ہوا تو اللہ اور اس کے رسول کی ناراضگی اور نارِ دوزخ کے مستحق ہونگے۔

 
 نماز میں سستی کرنے والوں اورنمازیں ضائع کرنے والوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ یُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَ هُوَ خَادِعُهُمْۚ۔الی آخر الآیة: دیکھیں اس آیت میں ایسے لوگوں کو منافق بتایا جارہا ہے۔ قابل قدر قارئین ! ہمیں غفلت نہیں برتنا چاہئے بلکہ ہمیں تو اپنی خوش بختی پر ناز ہونا چاہیے کہ نماز بغیر ترجمان کے اللہ عزوجل سے ہمکلامی کا شرف ہے۔ حضرت سیدنا ابو بکر بن عبداللہ مزنی علی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :اے ابن آدم! جب تو بغیر اجازت مولی کی بارگاہ میں حاضر ہونا اور بغیر ترجمان کے اس سے کلام کرنا چاہیں تو اس کی بارگاہ میں حاضر ہوجا" عرض کی گئی :یہ کیسے ممکن ہے ؟ فرمایا: " کامل وضو کر کے محراب میں داخل ہوکر نماز میں مشغول ہو جاپس جب تو اپنے مولا کی بارگاہ میں بغیر اجازت کے داخل ہوجائے گا تو بغیر ترجمان کے اس کے ساتھ کلام بھی کرے گا۔ سبحان اللہ !
اللہ عزوجل ہم سب کو توفیق عطا فرمائے۔

از قلم: فرازفیضی، کشنگنج بہار

   10
9 Comments

Amir

30-Jun-2022 04:35 PM

nice

Reply

Simran Bhagat

30-Jun-2022 11:25 AM

ماشاءاللہ ماشاءاللہ

Reply

Raziya bano

30-Jun-2022 09:55 AM

Beautiful

Reply